تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
by مضطر خیرآبادی

تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
میں کوئی غم تو نہیں تھا جسے کھا بیٹھا ہے

بات کچھ خاک نہیں تھی جو اڑائی تو نے
تیر کچھ عیب نہیں تھا جو لگا بیٹھا ہے

میل کچھ کھیل نہیں تھا جو بگاڑا تو نے
ربط کچھ رسم نہیں تھا جو گھٹا بیٹھا ہے

آنکھ کچھ بات نہیں تھی جو جھکائی تو نے
رخ کوئی راز نہیں تھا جو چھپا بیٹھا ہے

نام ارمان نہیں تھا جو نکالا تو نے
عشق افواہ نہیں تھا جو اڑا بیٹھا ہے

لاگ کچھ آگ نہیں تھی جو لگا دی تو نے
دل کوئی گھر تو نہیں تھا جو جلا بیٹھا ہے

رسم کاوش تو نہیں تھی جو مٹا دی تو نے
ہاتھ پردہ تو نہیں تھا جو اٹھا بیٹھا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse