تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
by شاہ نصیر

تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
ہم مر نہ گئے دل کو کڑھایا تو ہوا کیا

تصویر نہالی سے ہم آغوش رہے ہم
گر آ کے نہ ساتھ اپنے سلایا تو ہوا کیا

دیکھا ہی کیے تیرے تصور میں قمر کو
گر تا سحر اے یار! جگایا تو ہوا کیا

پھولوں کی رہی سیج جو خالی تو بلا سے
انگاروں پہ گر ہم کو لٹایا تو ہوا کیا

منہ لال ہوا غنچہ صفت خون جگر سے
ہاتھوں سے ترے پان نہ کھایا تو ہوا کیا

بہتر یہ ہوا نامہ و پیغام سے چھوٹے
گر آپ نہ آیا نہ بلایا تو ہوا کیا

دشمن کا اڑانے کو دھواں یہ بھی بہت ہیں
غیروں کے سکھانے سے جلایا تو ہوا کیا

مر جانے سے تو ہم رہے جوں پنجۂ مرجاں
ہاتھ اپنا جو مہندی سے بندھایا تو ہوا کیا

تو آپ ہی دیکھ انگلیوں کی فندقیں اودی
جامن کے جو پودوں کو لگایا تو ہوا کیا

دیکھا ہے بہت بھان متی کا یہ تماشا
سرسوں کو ہتھیلی پہ جمایا تو ہوا کیا

ہم سرو چمن دل کی ہر اک آہ کو سمجھے
اپنا قد موزوں نہ دکھایا تو ہوا کیا

ہم نے بھی محبت کو تری طاق پہ رکھا
ابرو جو سوئے غیر ہلایا تو ہوا کیا

یہ یاد رہے ہم بھی نہیں یاد کریں گے
گر تو نے ہمیں دل سے بھلایا تو ہوا کیا

مینا بہ بغل آبلۂ دل سے رہے ہم
جام مے گل گوں نہ پلایا تو ہوا کیا

دم اور ہی اک دوستی کا یار بھریں گے
منہ جوں نئے قلیاں نہ لگایا تو ہوا کیا

مت کہہ کہ تصور میں خط سبز کے میرے
گر شاہؔ نصیرؔ اشک بہایا تو ہوا کیا

ہے دلنے کو چھاتی پہ تری مونگ خط سبز
گر زہر غم ہجر کھلایا تو ہوا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse