تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن
by عبدالرحمان احسان دہلوی

تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن
کہ ماہتاب کی راتیں ہیں آفتاب کے دن

جوان تو بھی ہے اپنے بھی ہیں شباب کے دن
بلا حساب دے بوسے نہیں حساب کے دن

ہوا سفید تری انتظار میں آخر
عجب طرح سے پھرے دیدۂ پر آب کے دن

ترے لبوں سے ہے روکش عجب طرح کے ہیں مست
لگے ہیں دن اسے کیوں کر پھریں شراب کے دن

قرار یہ تھا کہ اتوار کے دن آؤں گا
کہا تھا میں نے گئے میرے اضطراب کے دن

ہوا دو چند الم آہ روز یک شنبہ
وہ آفتاب مرا آیا آفتاب کے دن

وہ زلف مجھ پہ ہے بے وجہ رات دن برہم
کسی طرح سے نہ بڑھتی نہیں عتاب کے دن

جگر سے شعلے نکلتے ہیں چشم سے آنسو
اس آب و تاب سے کٹتے پیچ و تاب کے دن

نہ جاؤ شیخ جی آؤ قریب ہے ہولی
خفا نہ ہو کہ چلے آتے ہیں خطاب کے دن

پلائی مے رمضاں میں نہ مجھ کو اے ساقی
بڑے عذاب سے کٹتے ہیں یہ ثواب کے دن

عذاب ہجر بھی دوزخ سے کم نہیں احساںؔ
الٰہی مجھ کو نہ دکھلائیو عذاب کے دن

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse