تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے
by تاباں عبد الحی

تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے
آہ کیا چاہنا ایسا ہی برا ہوتا ہے

تیرے ابرو سے مرا دل نہ چھٹے گا ہرگز
گوشت ناخن سے بھلا کوئی جدا ہوتا ہے

میں سمجھتا ہوں تجھے خوب طرح اے عیار
تیرے اس مکر کے اخلاص سے کیا ہوتا ہے

ہے کف خاک مری بسکہ تب عشق سے گرم
پانو واں جس کا پڑے آبلہ پا ہوتا ہے

دل مرا ہاتھ سے جاتا ہے کروں کیا تدبیر
یار مدت کا مرا ہائے جدا ہوتا ہے

راہبر منزل مقصود کو درکار نہیں
شوق دل اپنا ہی یاں راہ نما ہوتا ہے

غیر ہرجائی مرا یار لیے جاتا ہے
مجھ پہ تاباںؔ یہ ستم آج بڑا ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse