تو آپ کو پوشیدہ و اخفا نہ سمجھنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو آپ کو پوشیدہ و اخفا نہ سمجھنا
by رند لکھنوی

تو آپ کو پوشیدہ و اخفا نہ سمجھنا
میں دیکھ رہا ہوں مجھے اندھا نہ سمجھنا

کم شیر ژیان سے مرا رتبہ نہ سمجھنا
کتا ہوں علی کا سگ دنیا نہ سمجھنا

گو زار ہوا ہوں مگر امداد جنوں سے
ہے دیو کی طاقت مجھے مردا نہ سمجھنا

ہمراہ مرے رہتی ہے ہر دم مدد غیب
لاکھوں پہ ہوں بھاری مجھے تنہا نہ سمجھنا

بزم غم شپیر میں جو چشم سے نکلے
ہر اشک کو تسبیح کا اک دانہ سمجھنا

جو دل کہ مبرا ہو محبت سے جہاں کی
اس دل کو دلا یار کا کاشانہ سمجھنا

نامہ جو لکھا ہے اسے رکھ چھوڑیو صاحب
وہ خط غلامی ہے نوشتا نہ سمجھنا

کافر ہوں نہ پھونکوں جو ترے کعبہ میں اے شیخ
ناقوس بغل میں ہے مصلٰی نہ سمجھنا

دیدار دکھا دیجئے غش آئیں تو آئیں
عاشق ہوں میں عاشق مجھے موسیٰ نہ سمجھنا

رکھنا نہ توقع دل ناداں تو کسی سے
اس وقت میں اپنوں کو بھی بیگانہ سمجھنا

حاصل نہیں سمجھانے سے ناصح تو سمجھ تو
کیا سمجھے بھلا یہ دل دیوانہ سمجھنا

بہکا ہوا عاشق نظر آ جائے جو کوئی
اس چشم فسوں ساز کا دیوانہ سمجھنا

چاہوں تو نکل جاؤں ابھی پیچ سے تیرے
الجھا مجھے او زلف چلیپا نہ سمجھنا

سر کٹ کے جو قدموں پہ گرے راہ وفا میں
یہ بھی مدد ہمت مردانہ سمجھنا

صحت تری ممکن نہیں سن رکھ دل بیمار
یہ گورکن آیا ہے مسیحا نہ سمجھنا

ہر حال میں خورسند ہوں تم خوش ہو کہ ناخوش
بندہ ہوں مجھے عاشق شیدا نہ سمجھنا

پلوا دے مے ہوشربا دیکھ مرا ظرف
ساقی جو بہک جاؤں تو دیوانہ سمجھنا

آ جائے کوئی ڈھیر اگر پاؤں کے نیچے
اے شمع رخو مرقد پروانہ سمجھنا

دیکھو کسی چہرہ پہ جو گیسو کوئی بل دار
افعی ہے اسے زلف چلیپا نہ سمجھنا

جویا ہے اگر رتبہ عالی کا جہاں میں
ادنیٰ سے بھی خود کو کبھی اعلیٰ نہ سمجھنا

اے رندؔ نہ ٹکنا کبھی ارباب ورع پاس
مل بیٹھنا اس سے جسے رندانہ سمجھنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse