تن آسانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تن آسانی
by میراجی

غسل خانے میں وہ کہتی ہیں ہمیں چینی کی اینٹیں ہی پسند آتی ہیں
چینی کی اینٹوں پہ وہ کہتی ہیں چھینٹا جو پڑے تو پل میں
ایک اک بوند بہت جلد پھسل جاتی ہے
کوئی پوچھے کہ بھلا بوندوں کے یوں جلد پھسل جانے میں
کیا فائدہ ہے
جب ضرورت ہوئی جی چاہا تو چپکے سے گئے اور نہا کر لوٹے
دھل دھلا کر یوں چلے آئے کہ جس طرح کسی جھیل کے پانی پہ کوئی مرغابی
ایک دم ڈبکی لگاتی ہے لگاتے ہی ابھر آتی ہے
اور پھر تیرتی جاتی ہے ذرا رکتی نہیں

وہ یہ کہتی ہیں مگر چینی کی اینٹوں کا اگر فرش ہو دیواریں ہوں
دل یہ کہتا ہے کہ ہر چیز کا نکھرا ہوا رنگ
آنکھوں کو کتنا بھلا لگتا ہے
جیسے برسات میں تھم جاتے ہیں بادل جو برس کر تو ہر اک پھلواری
یوں نظر آتی ہے
جیسے جانا ہو اسے اپنے کسی چاہنے والے سے کہیں ملنے کو جانا ہو مگر
ابھی کچھ سوچ میں ہو
کوئی پوچھے کہ بھلا چینی کی اینٹوں کو کسی سوچ سے کیا نسبت ہے
چینی کی اینٹیں تو بے جان ہیں پھلواری میں ہر پھول کلی ہر پتہ
زیست کے نور سے لہراتا ہے
پھول مرجھائے کلی کھلتی ہے
اور ہر پتہ نئے پھول کے گن گاتا ہے
چینی کی اینٹیں کوئی گیت نہیں گا سکتیں
چینی کی اینٹیں تو خاموش رہا کرتی ہیں
ایسی خاموشی سے اکتا کے نہانے والا
کچھ اس انداز سے اک تان لگاتا ہے کہ لقمان ہی یاد آتا ہے
جب میں یہ کہتا ہوں وہ پوچھتی ہیں
کوئی پوچھے تو بھلا تان کو لقمان سے کیا نسبت ہے
اور میں کہتا ہوں لقمان کو لقمان کو یا تان کو رہنے دو چلو
اور کوئی بات کریں
اور یوں لیٹے ہی رہتے ہیں کسی کے دل میں
دھیان آتا ہی نہیں
غسل خانے میں قدم رکھیں نہا کر سوئیں
لیٹے لیٹے یوں ہی نیند آتی ہے سو جاتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse