تنہائی (عظیم الدین احمد)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تنہائی
by عظیم الدین احمد

مجھ سا تنہا نہیں دنیا میں خدایا کوئی
میں نہ اپنا ہوں کسی کا بھی نہ میرا کوئی
کیا ملا مجھ کو چہل سالہ رفاقت کرکے
اب کسی پر نہ کرے آہ بھروسا کوئی
تابش ہجر نے دل کی یہ بنا دی صورت
جیسے ہو دھوپ میں تپتا ہوا صحرا کوئی
آتش شوق کی اٹھتی ہیں کچھ ایسی لہریں
جس طرح آگ کا بھڑکا ہوا دریا کوئی
ایک وہ دن تھا کہ روتوں کو ہنسا دیتا تھا
اب تو روتا ہوں جو دیکھا کہیں ہنستا کوئی
میں ہوں نیرنگی عالم کی مجسم تصویر
مجھ سے بہتر نہیں عبرت کا تماشا کوئی
میں وہ قطرہ ہوں سمندر سے جو محروم رہا
مجھ کو کیا موج میں آیا کرے دریا کوئی
بے رخی آہ یہ کیسی ہے کہ اس عالم میں
ملے لاکھوں نہ ہوا ایک بھی اپنا کوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse