تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں (نعت)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
by محمد علی جوہر

تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں ان سے ، خلوت میں ملاقاتیں

ہر لحظہ تشفی ہے، ہر آن تسلی ہے
ہر وقت ہے دل جوئِی ، ہر دم ہیں مدا راتیں

کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں
ہر روز یہی چرچے ، ہر روز یہی باتیں

معراج کی سی حاصل ، سجدوں میں ہے کیفیت
اک فاسق و فاجر ہیں، اور ایسی کراماتیں؟

بے مایہ سہی لیکن، شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں در ودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse