تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
by جوشش عظیم آبادی

تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
کیا خوب گزرتی ہے اوقات جدائی میں

رخصت ہو چلا تھا تب دامن نہ ترا تھاما
افسوس کہ ملتے ہیں اب ہاتھ جدائی میں

کیا ذکر ہے آنسو کا ظالم مری آنکھوں سے
خوں ناب ہی ٹپکے ہے یک ذات جدائی میں

جب وصل تھا ان روزوں یک دل ہی پہ آفت تھی
اب جان کا ہے سودا ہیہات جدائی میں

یہ نالہ و زاری یہ خستگی و خواری
جیدھر کو چلوں ؔجوشش ہیں سات جدائی میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.