Jump to content

تنبیہ الجہال

From Wikisource
تنبیہ الجہال
by میر تقی میر
314934تنبیہ الجہالمیر تقی میر

صحبتیں جب تھیں تو یہ فن شریف
کسب کرتے جن کی طبعیں تھیں لطیف
تھے ممیز درمیاں انصاف تھا
خار و خس سے کیا یہ عرصہ صاف تھا
دخل اس فن میں نہ تھا اجلاف کو
کچھ بتاتے تھے بھی سو اشراف کو
تھے جو اس ایام میں استاد فن
ناکسوں سے وے نہ کرتے تھے سخن
پھر حصول اس سے نہ دنیا ہے نہ دیں
کوئی حاجت اس سے وابستہ نہیں
گر چمار اس کارخانے میں نہ ہو
ٹوٹے جوتے کو کہاں لے کر پھرو
چار ناچار اس کنے جانا پڑے
کوڑیاں دے جوتی گٹھوانا پڑے
حاجت اس فرقے سے مطلق یاں نہیں
جو نہ ہو شاعر تو کچھ نقصاں نہیں
یہ تو دنیا میں ہے اس فن کو کمال
دین کا اس فرقے کے پوچھو نہ حال
کذب ہو جس جاے رونق بخش سمع
واں کی دینداری رکھو اور دل کو جمع
جھوٹ آوے اس قدر جب درمیاں
تو یقیں ایمان کیسا دیں کہاں
ہم تلک تھی بھی وہی رسم قدیم
یعنی جن کے ہوتے تھے ذہن سلیم
پیار کرتے تھے انھیں استاد فن
ان کے ہوتے رہبر راہ سخن
جلف واں زنہار پاتے تھے نہ بار
شاعری کاہے کو تھی ان کا شعار
نکتہ پردازی سے اجلافوں کو کیا
شعر سے بزازوں ندافوں کو کیا
الغرض یاروں نے قیدیں دیں اٹھا
جو کوئی آیا اسے دی پاس جا
ٹک نہ استعداد سے کی گفتگو
کچھ نہ رکھی شاعری کی آبرو
چار سکھیاں کہہ کے دیں ناکس کے ہاتھ
پھر اسے مجلس میں لائے اپنے ساتھ
آپ بیٹھے صدر میں وہ دست چپ
کرنے لاگے شاعری سے حرف گپ
بولے ان کو آج کل سے ہے خیال
ذہن ان کا تیزی رکھتا ہے کمال
ہو رہیں گے کچھ اگر صحبت رہی
اور ہم سے بھی انھیں الفت رہی
جو ہوا ثابت وہ ان کا مستفید
سب نے جانا اس کو شاگرد رشید
کی اشارت تاکہ وہ کھولے دہن
آگے استادوں کے ہو گرم سخن
ان کے ایما سے وہ کچھ پڑھنے لگا
صاحبان فن کے منھ چڑھنے لگا
نیم قد اٹھ اٹھ کے یہ سننے لگے
جا و بیجا سر کے تیں دھننے لگے
وہ سراپا جہل ناگہ وقت کار
ہم سے تم سے کرنے لاگا اعتذار
سر میں رکھ کر دعوی طبع لطیف
میرؔ و مرزاؔ کا ہوا آخر حریف
کیسی کیسی یوں گئیں طبعیں بہ باد
آفریں شاگرد و رحمت اوستاد
جب تلک یاں تھی تمیز زشت و نیک
کاہے کو یوں شعر کہتا تھا ہر ایک
اہل فن کی رہتی تھی سب کو تلاش
ان کے ہاں کرتے تھے جاکر بودوباش
جوکہ خودسر رکھتے استادوں سے عار
ان کے تیں ہرگز نہ ہوتا اعتبار
زندگی بلکہ انھوں پر شاق تھی
ہاتھ گر لگ جاتی تھی شلاق تھی

حکایت

شائق فن تھا وزیر اصفہاں
ایک دن آیا ہلالی اس کے ہاں
حاجبان در سے ہو آگاہ کار
کی اشارت تا اسے دیں گھر میں بار
عزت و تعظیم کی حد سے زیاد
پاس لے مسند پہ بیٹھا شاد شاد
ان نے کھینچی اس کی مرزائی بہت
بیٹھے بیٹھے رات جب آئی بہت
شعر کی تقریب لاکر درمیاں
کرنے لاگا شاعری کا امتحاں
شعرخوانی کی پڑھا سو تھا غلط
سنتے ہی بھڑکا وہ شعلہ کی نمط
غصہ ہو بولا کہ ہاں فراش و چوب
کھینچ لا میداں میں کی شلاق خوب
اس قدر مارا کہ بے دم ہوگیا
سوج دست و پا ہر اک تھم ہوگیا
کھینچ کر ڈلوا دیا دربار میں
یہ خبر پہنچی جو ہر بازار میں
وارث اس کے لے گئے آ رات کو
جب بخود آیا تو پایا بات کو
یعنی دستور زماں دشمن نہ تھا
یا وہ کچھ ناآشناے فن نہ تھا
غالباً پایا غلط اشعار کو
خوش نہ آیا اس کرم کردار کو
ورنہ شیوہ اس کا ہے لطف و کرم
جائزے میں دے ہے دینار و درم
مجھ کو کیوں شلاق کرتا اتنی شب
کاہے کو بدنام ہوتا بے سبب
پس مجھے ہے تربیت اپنی ضرور
جا کے بیٹھوں اک سرآمد کے حضور
صحبت اکثر رکھوں اس استاد سے
شاید اس کی دولت ارشاد سے
پہنچے اک رتبے کو میری قیل و قال
ہو مجھے اس فن میں یک گونہ کمال
اٹھ کے آیا مولوی جامی کنے
مشق کی یک چند اس نامی کنے
جب ہوا کچھ شعر کا رتبہ بلند
اور مولانا لگے کرنے پسند
پھر گیا اک دن در دستور پر
حاجب درگاہ نے کی جا خبر
کاے امیر اس روز کا شلاق خوار
آج در اوپر ہے پھر خواہان بار
کی اشارت سد رہ کوئی نہ ہو
قصد ہے برخورد کا تو آنے دو
سامنے آیا تو کی نیچی نظر
دھوپ میں جلتا رہا دو اک پہر
بعد ازاں ایماے ابرو کی کہ ہاں
صحن ہی میں سے ہوا وہ مدح خواں
پھر وہیں سے دے صلہ رخصت کیا
اک مصاحب نے جگر کر کر کہا
اگلی صحبت کی تھی عزت اس قدر
سو ہوئی شلاق حد سے بیشتر
اب کی اس کو جائزہ دے کر گراں
تونے فرمایا مرخص واں سے واں
میں نہ سمجھا یہ کہ وہ کیا تھا یہ کیا
در جواب اس برگزیدہ نے کہا
ایسی ہی ہوتی ہیں تضحیک سلف
دست ہو تو ان کے تیں کریے تلف
اس قدر اس کا تنبہ تھا ضرور
تاکہ پہنچے یہ خبر نزدیک و دور
جو سنے سو خودسری سے باز آئے
تربیت ہونے کو استادوں کے جائے
ورنہ کرتا پوچ گوئی ہر دبنگ
رفتہ رفتہ شاعری ہوجاتی ننگ
تب جو میں شلاق کی یہ خام تھا
اب جو آیا لائق انعام تھا
قصہ کوتہ تھے ممیز درمیاں
کاہے کو تھے گلہ گلہ شاعراں
اب جو دیکھو ہر طرف ہے ازدحام
ننگ ہے کرم مزابل پر بھی کام
بے تمیزی سے ہے رائج ابتری
جس کو دیکھو خودنمائی خودسری
نے بیاں کا ہے سلیقہ نے زباں
اس پہ ہے ہر ایک سحبان زماں
بس قلم وقت زباں بازی نہیں
چپ کہ دوران سخن سازی نہیں
کون حرف خوب کو کرتا ہے گوش
بات کی فہمید کا ہے کس کو ہوش
بے تمیزوں سے بھرا ہے سب جہاں
اب دماغ حرف ہم کو بھی کہاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.