تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
by محمد علی جوہر

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے

پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں وہی پیغام قضا میرے لیے ہے

یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لیے ہے

کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لیے ہے

میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لیے ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے

سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخی خون شہدا میرے لیے ہے

راحل ہوں مسلمان بصد نعرۂ تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگ درا میرے لیے ہے

انعام کا عقبیٰ کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لیے ہے

کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لیے ہے

اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لیے ہے

اللہ کے رستہ ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لیے ہے

اے چارہ گرو چارہ گری کی نہیں حاجت
یہ درد ہی داروئے شفا میرے لیے ہے

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

جو صحبت اغیار میں اس درجہ ہو بیباک
اس شوخ کی سب شرم و حیا میرے لیے ہے

ہے ظلم ترا عام بہت پھر بھی ستم گر
مخصوص یہ انداز جفا میرے لیے ہے

ہیں یوں تو فدا ابر سیہ پر سب ہی میکش
پر آج کی گھنگھور گھٹا میرے لیے ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse