تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے
پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں وہی پیغام قضا میرے لیے ہے
یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لیے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لیے ہے
میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخی خون شہدا میرے لیے ہے
راحل ہوں مسلمان بصد نعرۂ تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگ درا میرے لیے ہے
انعام کا عقبیٰ کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لیے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لیے ہے
اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لیے ہے
اللہ کے رستہ ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لیے ہے
اے چارہ گرو چارہ گری کی نہیں حاجت
یہ درد ہی داروئے شفا میرے لیے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
جو صحبت اغیار میں اس درجہ ہو بیباک
اس شوخ کی سب شرم و حیا میرے لیے ہے
ہے ظلم ترا عام بہت پھر بھی ستم گر
مخصوص یہ انداز جفا میرے لیے ہے
ہیں یوں تو فدا ابر سیہ پر سب ہی میکش
پر آج کی گھنگھور گھٹا میرے لیے ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |