تم ہو بزم عیش ہے واں اور صحبت داریاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم ہو بزم عیش ہے واں اور صحبت داریاں
by مرزا علی لطف

تم ہو بزم عیش ہے واں اور صحبت داریاں
ہم ہیں کنج غم ہے یاں اور جان سے بیزاریاں

تم کو سیر باغ و گلگشت چمن کا واں ہے شوق
یاں بدن پر ہیں ہجوم داغ سے گل کاریاں

دھیان ہے آرائش زلف پریشاں کا تمہیں
یاد ہیں حال پریشاں کی مری کچھ خواریاں

تم صفائے ساعد و بازو دکھاتے ہو وہاں
ہم پہ یاں موئے بدن کرتے ہیں نشتر داریاں

تم نے دکھلائی وہاں پیٹھ اور چوٹی کی پھبن
یاں مری چھاتی پہ ہیں کالے نے لہریں ماریاں

نیک و بد دونوں سے یاں ہم نے تو آنکھیں موند لیں
تم وہاں چتون کی دکھلاتے ہو جادو کاریاں

یاں برنگ پیکر تصویر ہم خاموش ہیں
گفتگو کی تم دکھاتے ہو وہاں طراریاں

قہقہے تم مارتے ہو واں بآواز بلند
دشمنوں سے یاں چھپا کر ہم ہیں کرتے زاریاں

ہر مریض غم کی جاں بخشی کا ہے واں تم کو دھیان
کھنچ گئیں یاں طول شدت سے مری بیماریاں

اضطراب دل سے بے پردہ ہوا یاں راز عشق
سوجھتی ہیں واں تمہیں ہر بات میں تہداریاں

کیا کسی سے بات کیجے بھولتے اک دم نہیں
ان بھلاؤں سے وہ باتوں میں تری عیاریاں

چھین کر باتوں میں دل کو لطفؔ سے وہ بت بنے
یاد رکھنا غیر کی کرنا وہاں دال داریاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse