تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
کہیں گل اور کہیں خار نظر آتے ہو
قابل دید تم اے یار نظر آتے ہو
چشم بد دور طرحدار نظر آتے ہو
صورتیں کرتے ہو اے جان ہزاروں پیدا
تم نئی شکل سے ہر بار نظر آتے ہو
بھول جاتا ہوں میں فرقت کے گلے اور شکوے
شکر کرتا ہوں جب اے یار نظر آتے ہو
آئنہ دیکھنے کو جب نہیں ملتا تم کو
اپنی تم تشنہ دیدار نظر آتے ہو
کہتے ہو ہم نہیں کرتے ہیں کوئی فرمائش
جان تک لینے کو تیار نظر آتے ہو
خوں کسی عاشق کشتہ کا چڑھا ہے سر پر
رنگ لائے ہوئے اے یار نظر آتے ہو
بند ہو جائیں نہ رستے کہیں دیوانوں سے
بال کھولے سر بازار نظر آتے ہو
رہتی ہیں آٹھ پہر آپ کو کنگھی چوٹی
اپنی زلفوں میں گرفتار نظر آتے ہو
خوف سے برج میں جلاد فک چھپتا ہے
تم جو باندھے ہوئے تلوار نظر آتے ہو
سنبلستاں ہیں مری جان سراسر زلفیں
رخ گل رنگ سے گلزار نظر آتے ہو
آبرو حسن کی دولت سے ملی ہے تم کو
رنگ کندن سا ہے زردار نظر آتے ہو
کیا ہے بے یار کھٹکتے ہو مری آنکھوں میں
اے گلو باغ میں تم خار نظر آتے ہو
شان ہے گیسوؤں سے آپ میں سرداری کی
سبزۂ خط سے نمودار نظر آتے ہو
ایسے معشوق زمانے میں کہاں ملتے ہیں
پیار کرنے کے سزاوار نظر آتے ہو
دونو گیسو پئے عاشق ہیں کمندیں دوہری
پیچ میں لاؤ گے عیار نظر آتے ہو
تپ الفت میں صباؔ ہے یہ تمہارا درجہ
دق کے آثار ہیں بیمار نظر آتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |