تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
by منشی بہاری لال مشتاق دہلوی

تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی
ہم کو بھی اب عدو سے عداوت نہیں رہی

ہر اک ادا پہ مرنے کی عادت نہیں رہی
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

مضمون مدعا ابھی دل میں ہی تھا مرے
کہتے ہیں اب تو تاب سماعت نہیں رہی

واں ہے وہی وفور عتاب و جفا و قہر
یاں ناز بھی اٹھانے کی طاقت نہیں رہی

بے شک نقاب رخ سے اٹھایا کسی نے آج
ظلمت کدہ میں میرے جو ظلمت نہیں رہی

مشتاقؔ تیرے عشق کی ہے دھوم آج کل
اب قیس و کوہ کن کی وہ شہرت نہیں رہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse