تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں
by باقی صدیقی

تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں
چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم سے خفا ہوں

رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے
برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں

سو بار گرہ دے کے کسی آس نے جوڑا
سو بار میں دھاگے کی طرح ٹوٹ چکا ہوں

جائے گا جہاں تو مری آواز سنے گا
میں چور کی مانند ترے دل میں چھپا ہوں

اک نقطے پہ آ کر بھی ہم آہنگ نہیں ہیں
تو اپنا فسانہ ہے تو میں اپنی صدا ہوں

چھیڑو نہ ابھی شاخ شکستہ کا فسانہ
ٹھہرو میں ابھی رقص صبا دیکھ رہا ہوں

منزل کا پتا جس نے دیا تھا مجھے باقیؔ
اس شخص سے رستے میں کئی بار ملا ہوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse