تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو  (1928) 
by سید امیر حسن بدر

تم پہ میں مر رہا ہوں مرنے دو
کام کرنے کا ہے یہ کرنے دو

ان کو اے ہم نشیں سنورنے دو
کوئی مرتا جو ہے تو مرنے دو

ناروا ظلم ان کو کرنے دو
خون ناحق میں ہاتھ بھرنے دو

باندھی تلوار کھل پڑا جوڑا
کھائے لچکے تری کمر نے دو

خون بولے گا سر پہ چڑھ کے وہاں
قتل کر کے یہاں مکرنے دو

چھینٹے کوثر کے واعظو دینا
ابھی شیشہ میں تو اترنے دو

بزم برخاست مے کشو نہ کرو
مرا جام سفال بھرنے دو

دیکھنا ٹھنڈی گرمیاں ان کی
ان کو حمام میں نکھرنے دو

چپ ہوئی کیوں زبان کیوں روکی
پھول جھڑنے دو گل کترنے دو

خود پریشان رو سیہ ہوگی
کان بھرتی ہے زلف بھرنے دو

جوش پر سیل اشک ہے ٹھیرو
ہیں چڑھیں ندیاں اترنے دو

فکر کیوں ہے نمک فشانی کی
زخم آ لے ابھی ہیں بھرنے دو

محو شکر جفا رہو تم بدرؔ
ظلم کرتے ہیں وہ تو کرنے دو

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse