تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
by امیر مینائی

تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
بر آئیں میرے دل کے بھی ارمان یا رسول

کیوں دل پہ میں فدا نہ کروں جان یا رسول
رہتے ہیں اس میں آپ کے ارمان یا رسول

رحمت دکھائے حشر میں وہ شان یا رسول
شرمندہ ہوکے ہوں میں پشیمان یا رسول

کشتہ ہوں روئے پاک کا نکلوں جو قبر سے
جاری مری زباں پہ ہو قرآن یا رسول

جس دم کہ دم بدن سے نکلنے لگے مرا
اس دم نہ ہوں حواس پریشان یا رسول

میں گھر گیا ہوں فوجِ معاصی میں المدد
کوئی نہیں نجات کا سامان یا رسول

محشر میں دست بستہ کہوں گا حضور سے
جی بھر کے نکلیں آج تو ارمان یا رسول

بلوائیے مدینے میں جائے یہ تفرقہ
اب ہند میں بہت ہوں پریشان یا رسول

سختیِ نزع تنگیِ گور و حسابِ حشر
یہ منزلیں کڑی نہوں سب آسان یا رسول

دنیا سے اور کچھ نہیں مطلوب ہے مجھے
لے جاؤں اپنے ساتھ میں ایمان یا رسول

کیا پیاری پیاری باتیں تھیں اصحابِ پاک کی
لائے تھے جب سے آپ پر ایمان یا رسول

ہنگامِ عرض کرتے تھے ہاتھوں کو جوڑ کر
ماں باپ سب ہیں آپ پہ قربان یا رسول

میں بھی تو ہوں غلام اسی در کا حکم ہو
روکیں نہ مجھ کو آپ کے دربان یا رسول

خوانِ عطا سے مجھ کو بھی ہوں نعمتیں عطا
سرکار میزباں ہیں میں مہمان یا رسول

اولاد میں مری برکت کا ظہور ہو
آباد گھر مرا نہ ہو ویران یا رسول

اس شوق میں کہ آپ کے دامن سے جا ملے
میں چاک کر رہا ہوں گریبان یا رسول

اب انبیا کی شان زمانے سے ہے بلند
ان سب سے برتر آپکی ہے شان یا رسول

کافی ہے یہ وسیلہ شفاعت کے واسطے
عاصی تو ہوں مگر ہوں پشیمان یا رسول

اس چاک میں مجھے درِ جنت نظر پڑے
وحشت میں چاک ہو جو گریبان یا رسول

حیرت زدہ ہے آنکھ تو رخسار دیئکھ کر
دل کیوں ہے شکلِ آئینہِ حیران یا رسول

مشکل کشا ہیں آپ امیؔر آپ کا غلام
اب اس کی مشکلیں بھی ہوں آسان یا رسول

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse