تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
by اکبر الہ آبادی

تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو کہ دیکھا دیکھا

طفل دل کو مرے کیا جانے لگی کس کی نظر
میں نے کمبخت کو دو دن بھی نہ اچھا دیکھا

لے گیا تھا طرف گور غریباں دل زار
کیا کہیں تم سے جو کچھ واں کا تماشا دیکھا

وہ جو تھے رونق آبادیٔ گلزار جہاں
سر سے پا تک انہیں خاک رہ صحرا دیکھا

کل تلک محفل عشرت میں جو تھے صدر نشیں
قبر میں آج انہیں بیکس و تنہا دیکھا

بسکہ نیرنگی عالم پہ اسے حیرت تھی
آئینہ خاک سکندر کو سراپا دیکھا

سر جمشید کے کاسے میں بھری تھی حسرت
یاس کو معتکف تربت دارا دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse