تم سے اب کامیاب اور ہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم سے اب کامیاب اور ہی ہے
by تاباں عبد الحی

تم سے اب کامیاب اور ہی ہے
آہ ہم پر عذاب اور ہی ہے

اس کو آئینہ کب پہنچتا ہے
حسن کی آب و تاب اور ہی ہے

رند واعظ سے کیوں کہ سربر ہو
اس کی چھو، کی کتاب اور ہی ہے

ہجر بھی کم نہیں ہے دوزخ سے
اس سفر کا عذاب اور ہی ہے

اس کو لگتی ہے کب کوئی تلوار
تیغ ابرو کی آب اور ہی ہے

یوں تو ہے سرخ یار کا چہرا
پر پئے جب شراب اور ہی ہے

مجھ کو اس نیند سے نہیں آرام
مجھ کو راحت کا خواب اور ہی ہے

بحث علمی سے کب ہیں یہ قائل
جاہلوں کا جواب اور ہی ہے

یاد میں تیری زلف و کاکل کی
دل کے تئیں پیچ و تاب اور ہی ہے

اس ستم گر کا مجھ پہ ہر ساعت
جور و ظلم و عذاب اور ہی ہے

کس طرح سے گہر کہوں تاباںؔ
اس کے دنداں میں آب اور ہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse