تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے
by ہجر ناظم علی خان

تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے
دنیا ہمارے دیدۂ حسرت نگر میں ہے

ہاں جانتے ہیں جان کا خواہاں تمہیں کو ہم
معلوم ہے کہ تیغ تمہاری کمر میں ہے

کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی
تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے

گو غیر کی بغل میں سہی وہ پری جمال
میں تو یہی کہوں گا کہ میری نظر میں ہے

دونوں نے درد عشق کو تقسیم کر لیا
تھوڑا سا دل میں ہے تو ذرا سا جگر میں ہے

میں بھی ہوں آج میں کہ بر آئی مراد دل
دل بھی ہے آج دل کہ وہ مہمان گھر میں ہے

ممنون ہوں خیال کا اپنے شب فراق
جو سامنے نظر کے نہیں وہ نظر میں ہے

دلبر ہو ایک تم کہ ہماری نظر میں ہو
دل ہے ہمارا دل کہ تمہاری نظر میں ہے

کہتے ہیں جس کو دل مرے پہلو میں اب کہاں
ہے بھی تو پائمال کسی رہ گزر میں ہے

دیکھو تو دیکھتے ہیں تمہیں کس نگاہ سے
حسرت ہے جس کا نام ہماری نظر میں ہے

جس پر پڑی پسیج گیا موم ہو گیا
ڈوبی ہوئی نگاہ ہماری اثر میں ہے

جچتا نہیں نگاہ میں کوئی حسیں بھی ہجرؔ
جب سے کسی کی چاند سی صورت نظر میں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse