تم بھی رہنے لگے خفا صاحب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
by مومن خان مومن

تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
کہیں سایہ مرا پڑا صاحب

ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب
غیر اور تم بھلے بھلا صاحب

کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے
خیر ہے میں نے کیا کیا صاحب

کیوں لگے دینے خط آزادی
کچھ گنہ بھی غلام کا صاحب

ہائے ری چھیڑ رات سن سن کے
حال میرا کہا کہ کیا صاحب

دم آخر بھی تم نہیں آتے
بندگی اب کہ میں چلا صاحب

ستم آزار ظلم و جور و جفا
جو کیا سو بھلا کیا صاحب

کس سے بگڑے تھے کس پہ غصہ تھا
رات تم کس پہ تھے خفا صاحب

کس کو دیتے تھے گالیاں لاکھوں
کس کا شب ذکر خیر تھا صاحب

نام عشق بتاں نہ لو مومنؔ
کیجئے بس خدا خدا صاحب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse