تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
by مرزا غالب

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے

دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر
نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے

نظر بہ نقص گدایاں کمال بے ادبی ہے
کہ خار خشک کو بھی دعواۓ چمن نسبی ہے

ہوا وصال سے شوق دل حریص زیادہ
لب قدح پہ کف بادہ جوش تشنہ لبی ہے

خوشا وہ دل کہ سراپا طلسم بے خبری ہو
جنون و یاس و الم رزق مدعا طلبی ہے

چمن میں کس کے یہ برہم ہوئی ہے بزم تماشا
کہ برگ برگ سمن شیشہ ریزۂ حلبی ہے

امام ظاہر و باطن امیر صورت و معنی
علیؔ ولی اسداللہ جانشین نبی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse