تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
by داغ دہلوی

تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
مری طرف بھی تو سرکار دیکھتے جاؤ

نہ جاؤ حال دل زار دیکھتے جاؤ
کہ جی نہ چاہے تو ناچار دیکھتے جاؤ

بہار عمر میں باغ جہاں کی سیر کرو
کھلا ہوا ہے یہ گلزار دیکھتے جاؤ

یہی تو چشم حقیقت نگر کا سرمہ ہے
نزاع کافر و دیں دار دیکھتے جاؤ

اٹھاؤ آنکھ نہ شرماؤ یہ تو محفل ہے
غضب سے جانب اغیار دیکھتے جاؤ

نہیں ہے جنس وفا کی تمہیں جو قدر نہ ہو
بنیں گے کتنے خریدار دیکھتے جاؤ

تمہیں غرض جو کرو رحم پائمالوں پر
تم اپنی شوخیٔ رفتار دیکھتے جاؤ

قسم بھی کھائی تھی قرآن بھی اٹھایا تھا
پھر آج ہے وہی انکار دیکھتے جاؤ

یہ شامت آئی کہ اس کی گلی میں دل نے کہا
کھلا ہے روزن دیوار دیکھتے جاؤ

ہوا ہے کیا ابھی ہنگامہ اور کچھ ہوگا
فغاں میں حشر کے آثار دیکھتے جاؤ

شب وصال عدو کی یہی نشانی ہے
نشان بوسۂ رخسار دیکھتے جاؤ

تمہاری آنکھ مرے دل سے لے سبب بے وجہ
ہوئی ہے لڑنے کو تیار دیکھتے جاؤ

ادھر کو آ ہی گئے اب تو حضرت زاہد
یہیں ہے خانۂ خمار دیکھتے جاؤ

رقیب برسر پرخاش ہم سے ہوتا ہے
بڑھے گی مفت میں تکرار دیکھتے جاؤ

نہیں ہیں جرم محبت میں سب کے سب ملزم
خطا معاف خطاوار دیکھتے جاؤ

دکھا رہی ہے تماشا فلک کی نیرنگی
نیا ہے شعبدہ ہر بار دیکھتے جاؤ

بنا دیا مری چاہت نے غیرت یوسف
تم اپنی گرمئ بازار دیکھتے جاؤ

نہ جاؤ بند کئے آنکھ رہروان عدم
ادھر ادھر بھی خبردار دیکھتے جاؤ

سنی سنائی پہ ہرگز کبھی عمل نہ کرو
ہمارے حال کے اخبار دیکھتے جاؤ

کوئی نہ کوئی ہر اک شعر میں ہے بات ضرور
جناب داغؔ کے اشعار دیکھتے جاؤ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse