تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے
by آرزو لکھنوی

تمہیں کیا کام نالوں سے تمہیں کیا کام آہوں سے
چھپایا ہو گناہ عشق تو پوچھو گواہوں سے

میں کشکول دل بے مدعا لے کر کہاں جاؤں
یہ پیغام طلب کیوں اونچی اونچی بارگاہوں سے

زباں ہو ایک الفت کی تو ممکن ہے زباں بندی
ہوئی جو بات چپکے کی وہ کہہ ڈالی نگاہوں سے

محبت اندر اندر زیست کا نقشہ پلٹتی ہے
یہی چلتی ہوئی سانسیں بدل جائیں گی آہوں سے

سند بے اعتمادی کی ہے قبل امتحاں گویا
بیان حال کے پہلے حلف لینا گواہوں سے

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

ہوئے جب آپ سے باہر پھر احساس دوئی کیسا
پتہ منزل کا ملتا ہے انہیں گم کردہ راہوں سے

بتا سکتی نہیں روئیدگی سبزہ و گل بھی
فقیروں سے پٹے تھے یہ گڑھے یا بادشاہوں سے

چھلکتے ظرف کا کھلتا بھرم کھوتا ہے بات اپنی
سکوں پاتا ہے دل کا درد نالوں سے نہ آہوں سے

یہ پہلے سوچ لیں آنکھوں میں لہراتے ہوئے آنسو
کہ وہ پھر اٹھ بھی سکتے ہیں جو گر جائیں نگاہوں سے

ملا بیٹھا ہے سب میں کچھ مگر منہ سے نہیں کہتا
الگ سمجھو تم اپنے آرزوؔ کو دادخواہوں سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse