تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا
دیا سرمہ بھی اور چپکا نہ پایا

خدا کو کیا کہوں پایا نہ پایا
کہ وصل بے خودی اصلا نہ پایا

بہت صورت کو میں ترسا نہ پایا
نہ پایا وہ بہت ترسا نہ پایا

سحاب تر نے بحر خشک سب نے
ہمارا دیدۂ تر سا نہ پایا

چلے ہم دل جلے اس بزم سے یار
جلے ہاتھوں سے اک بیڑا نہ پایا

سدا سورج نے دن بھر اس کو ڈھونڈا
کبھی وہ چاند کا ٹکڑا نہ پایا

بہت اچھا ہوا اچھی ہے قسمت
مریض عشق کو اچھا نہ پایا

جو اس گردن کا نقشہ ہے وہ ہم نے
صراحی دار موتی کا نہ پایا

در اشک مسلسل اے شہ عشق
تری دولت سے یہ سہرا نہ پایا

بہت سیدھا بناؤں گا فلک کو
کہ اس کج کو کبھی سیدھا نہ پایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse