تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں
by شاہ مبارک آبرو

تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں
ہوئی ہیں تب سیں دونی خوش نما صاحب جمال انکھیاں

قیامت آن ہے اس وقت میں ان پر نزاکت کی
دیکھو آئی ہیں دکھنے کس جھمک سیں یہ چھنال انکھیاں

ایسے کیوں ٹوٹ آئیں جوش سیں پیارے حرارت کے
لگی تھی گرم ہو کر اس قدر یہ کس کے نال انکھیاں

علاج ان کا ہے پیارے عاشقوں کے سنگ کی ہلدی
رنگیں اس میں کہو کپڑا کریں اپنا رومال انکھیاں

مرا دل پوٹلی کی طرح ان پر لے کے ٹک پھیرو
مجرب ٹوٹکا ہے اس میں آ جاں گی بحال انکھیاں

ضرر ہے تند ہو کر دیکھنا بیمار کوں پیارے
ٹک اک پرہیز کر عاشق پے دو دن مت نکال انکھیاں

مرا دکھتا ہے جی یہ انمناہٹ دیکھ کر ان کا
ابلتا ہے بہت جب دیکھتا ہوں میں ملال انکھیاں

نذر بدتا ہوں اپنی جان و جی کو میں کروں صدقے
اگر دیویں مجھے اپنی شفا ہونے کی فال انکھیاں

سزا ہے ان کے تئیں یہ درد تھوڑا سا کہ کرتی تھیں
ہمیشہ چشم پوشی آبروؔ کا دیکھ حال انکھیاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.