تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم
by دل شاہ جہانپوری

تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم
خودداریوں کا خواب پریشاں ہے اور ہم

ساحل سے دور غرق ہوئی کشتئ امید
موجوں کو چھیڑتا ہوا طوفاں ہے اور ہم

کس نے حریم ناز کا پردہ الٹ دیا
نظروں میں ایک شعلۂ لرزاں ہے اور ہم

تیری تجلیاں ہیں جہاں تک نظر گئی
اسرار کائنات کا عرفاں ہے اور ہم

بالیں سے کون محو تبسم گزر گیا
اب ہر نظر بہار بد اماں ہے اور ہم

وارفتگیٔ عشق نے پہنچا دیا کہاں
خاموش اک فضائے بیاباں ہے اور ہم

اے دلؔ یہ سن رہے ہیں کہ دنیا بدل گئی
اب تک انہیں حدوں میں بیاباں ہے اور ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse