تمنا ہے کسی کی تیغ ہو اور اپنی گردن ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمنا ہے کسی کی تیغ ہو اور اپنی گردن ہو
by ظریف لکھنوی

تمنا ہے کسی کی تیغ ہو اور اپنی گردن ہو
پھر اس کے بعد یا رب سر کٹے نالے میں مدفن ہو

ہجوم عام ہو اور مجتمع گوروں کی پلٹن ہو
سمجھ لو لوٹ آئے ہیں جو اسٹیشن پہ دن دن ہو

کہیں قاتل کو ہم محبوب اگر ہے عین نادانی
حذر لازم ہے ایسے شخص سے جو اپنا دشمن ہو

لب شیریں اگر معشوق کا قند مکرر ہے
جبھی جانیں کہ بیٹھیں مکھیاں اور اس پہ بھن بھن ہو

نہ تربت کی جگہ کوچے میں پائی تو شکایت کیا
گلی ان کی کوئی تکیہ ہے جس میں اپنا مدفن ہو

یہ سب لکڑی کے تختے خاک میں مل جائیں جل بھن کر
غضب ہو جائے گر سچ مچ لحد میں داغ روشن ہو

یہی دہشت اگر دست جنوں کی ہے تو اے بھائی
دوپٹہ اوڑھ لو جس میں گریباں ہو نہ دامن ہو

نگاہ شوق کیا ٹھہری وہ گویا بیلچہ ٹھہری
مکان یار کی دیوار میں جس سے کہ روزن ہو

مچائے شور و غل آہ شرر افشاں کرے ہر دم
یہی اوصاف لازم ہے تو عاشق کیوں ہو انجن ہو

ہمارا جونجھ پھلواری میں ہو کوئی نہیں کہتا
یہی کہتے ہیں یا رب باغ میں اپنا نشیمن ہو

ازل سے تا ابد لمبی یقیں ہے ٹانگ بھی ہوگی
حسین شوخ وہ صحرائے محشر جس کا دامن ہو

ظریفؔ انصاف سے کہہ دو وہ عاشق ہے کہ چوہا ہے
زمین قصر جاناں میں جو یہ چاہے کہ مسکن ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse