تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں
Appearance
تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں
یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں
بہار آئی ہے بلبل درد دل کہتی ہے پھولوں سے
کہو تو میں بھی اپنا درد دل تم سے بیاں کر لوں
ہزاروں شوخ ارماں لے رہے ہیں چٹکیاں دل میں
حیا ان کی اجازت دے تو کچھ بیباکیاں کر لوں
کوئی صورت تو ہو دنیائے فانی میں بہلنے کی
ٹھہر جا اے جوانی ماتم عمر رواں کر لوں
چمن میں ہیں بہم پروانہ و شمع و گل و بلبل
اجازت ہو تو میں بھی حال دل اپنا بیاں کر لوں
کسے معلوم کب کس وقت کس پر گر پڑے بجلی
ابھی سے میں چمن میں چل کر آباد آشیاں کر لوں
بر آئیں حسرتیں کیا کیا اگر موت اتنی فرصت دے
کہ اک بار اور زندہ شیوۂ عشق جواں کر لوں
مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ
تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |