تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
by شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں

ستایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse