تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
by ثاقب لکھنوی

تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
اٹھا جو پردۂ ہستی مجھے حجاب آیا

اجل نصیب تھا شام وصال خواب آیا
وہ بے حجاب ہوئے تو مجھے حجاب آیا

بلا ہے عہد جوانی سے خوش نہ ہو اے دل
سنبھل کہ عمر کی دنیا میں انقلاب آیا

بڑھائے حوصلے دریا دلی نے ساقی کی
ذرا سے جام میں سو بار آفتاب آیا

کوئی صدا نہیں آتی کہ کون ہے کیا ہے
کہاں بھٹک کے دل خانماں خراب آیا

امید و بیم میں رکھا تمام رات مجھے
کبھی نقاب اٹھائی کبھی حجاب آیا

زمانے والوں کو پہچاننے دیا نہ کبھی
بدل بدل کے لباس اپنے انقلاب آیا

سوائے یاس نہ کچھ گنبد فلک سے ملا
صدا بھی دی تو پلٹ کر وہی جواب آیا

اڑا کے ہوش ہوا ہو گئی تجلی طور
سبھوں سے آنکھ چراتا ہوا حجاب آیا

حریف مے نہیں سمجھا تو کیوں مری جانب
لہو کے گھونٹ پئے ساغر شراب آیا

ہٹے نہ اپنی طبیعت سے حسن و عشق کبھی
ہزار بار زمانے میں انقلاب آیا

سنائیں کیا تمہیں نیرنگ عشق کا قصہ
تمام عمر نہ آنکھیں کھلیں نہ خواب آیا

کھٹک وہ دل میں ہی پیدا جو آج تک نہ ہوئی
سمجھ رہا ہوں کہ طفلی گئی شباب آیا

کفن پنہا دیا ثاقبؔ صنم پرستی نے
خدا کے سامنے جاتے ہوئے حجاب آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse