تماشا ہو جو دل میں عکس روئے یار ہو پیدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تماشا ہو جو دل میں عکس روئے یار ہو پیدا
by جمیلہ خدا بخش

تماشا ہو جو دل میں عکس روئے یار ہو پیدا
کہ اپنا عشق کا اک محرم اسرار ہو پیدا

رخ و گیسو دکھا کر ناز سے کہتا ہے وہ دلبر
کوئی کافر ہو پیدا اور کوئی دیں دار ہو پیدا

تمہاری سلک دنداں کے تصور نے رلایا ہے
نہ کیوں اشکوں سے میرے گوہر شہوار ہو پیدا

کہیں منہ پھیرتا ہے جاں نثار عشق مرنے سے
فدا وہ جان کر لے تجھ پہ گر سو بار ہو پیدا

اگر گریہ کناں سرشار الفت ہوں تو اے ساقی
انہیں کے آنسوؤں سے بادۂ گلنار ہو پیدا

مداوا غیر ممکن ہے ترے بیمار الفت کا
جو اک آزار اچھا ہو تو اک آزار ہو پیدا

جمیلہؔ ناوک مژگان دلبر سے جو ہو زخمی
نہ کیوں اس کی لحد پر نرگس بیمار ہو پیدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse