تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے
by مبارک عظیم آبادی

تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے
گرا ہے وہ پردہ کہ اٹھتا نہیں ہے

یہ کس کی نظر دے گئی روگ یارب
سنبھالے سے اب دل سنبھلتا نہیں ہے

تڑپ جائیے گا تڑپ جائیے گا
تڑپنا ہمارا تماشا نہیں ہے

بہت پھانس نکلی بہت خار نکلے
مگر دل کا کانٹا نکلتا نہیں ہے

یہ ہر شخص کی لن ترانی ہے کیسی
کہ ہر آنکھ تو چشم موسیٰ نہیں ہے

سلامت مری وحشت دل سلامت
کہاں میری وحشت کا چرچا نہیں ہے

مری جان بھی ہے عنایت تمہاری
یہ دل بھی تمہارا ہے میرا نہیں ہے

بلائی گئی ان کی محفل میں دنیا
مگر ایک میرا بلاوا نہیں ہے

ذرا آپ سمجھایئے دل کو ناصح
میں سمجھا رہا ہوں سمجھتا نہیں ہے

تمہیں دیکھنے کو ترستی ہیں آنکھیں
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse