تلوار تری رواں بہت ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تلوار تری رواں بہت ہے
by داغ دہلوی

تلوار تری رواں بہت ہے
تھوڑا بھی تو امتحاں بہت ہے

کچھ آہ کے حوصلہ نکلتے
نیچا مگر آسماں بہت ہے

دامن پہ ترے لگی رہی خاک
اتنا ہی مرا نشاں بہت ہے

دل تنگ سہی پر اے تمنا
مر رہنے کو یہ مکاں بہت ہے

اک کوہ گراں ہے عشق لیکن
اس کو دل ناتواں بہت ہے

الفت میں نہیں ہے صبر نایاب
یہ چیز مگر گراں بہت ہے

باطن کی خبر خدا کو ہے داغؔ
ظاہر میں وہ مہرباں بہت ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse