تلاش جس نور کی ہے تجھ کو چھپا ہے تیرے بدن کے اندر
تلاش جس نور کی ہے تجھ کو چھپا ہے تیرے بدن کے اندر
ظہور عالم ہوا اسی سے وہ ہے ہر اک جان و تن کے اندر
تجھے یہ بے صرفہ جد و کد ہے کشاکشی میں بھی شد و مد ہے
نفس کی تجھ کو اگر مدد ہے سفر ہے اس جا وطن کے اندر
تجھے وہاں سے گریز و رم ہے تلاش اب آہو حرم ہے
چلا ہے وہ راہ جو بھرم ہے، ہے مشک نافہ ختن کے اندر
جہاں میں سارا ہے نور تیرا ہر ایک شے میں ظہور تیرا
مگر تخیل ہے دور تیرا پڑا ہے بیت الحزن کے اندر
تو ہی محقق تو ہی مجدد بنا ہے تو آپ ہی مقلد
تو رسم و رہ کا ہوا مقید پھنسا ہے خود ما و من کے اندر
قدیم ویراں کدہ ہے ہستی سمجھ اسے ہے فنا کی بستی
یہ تیری ہمت کی سب ہے پستی زبوں ہے دہر کہن کے اندر
عجیب احمق ہے اور سادہ سوار ہو کر ہوا پیادہ
کدھر چلا یہ نہیں ہے جادہ تو کیوں بھٹکتا ہے بن کے اندر
یہ آتش عشق کی ہے جدت کہ دل میں پیدا ہوئی ہے رقت
یہ سوز غم کی ملی ہے لذت مزہ ہے دل کی جلن کے اندر
ہوا ہے مست شراب گلگوں اکڑ رہا ہے وہ سرو موزوں
دکھا کے ہم کو یہ جام واژوں خجل کیا انجمن کے اندر
ہوا ہے سرشار وہم ساقیؔ تجھے نہیں شوق وصل باقی
ہوائے دنیا کا ہے مراقی پڑا ہے آواگون کے اندر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |