تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
by آرزو لکھنوی

تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر
وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر

غم بڑھنے دے اے دل اور ذرا جانچ آہ کی بے تاثیر نہ کر
ہے خواب ادھورا آپ ابھی بے سمجھے غلط تعبیر نہ کر

جب ظلم کا بدلہ ظلم ہوا مظلوم کا حق کچھ بھی نہ رہا
دے درد ہی میں لذت یا رب نالے کو عطا تاثیر نہ کر

ہو لاکھ کمان کڑی قاتل کچھ جذب نشانے میں بھی ہے
بازو کے بل پہ نظر کر کے اندازۂ زخم تیر نہ کر

اب تک جو نگاہیں سیدھی ہیں ممکن ہے کل یہ پلٹ جائیں
جو کرنا ہو کرے ایسے میں کس سوچ میں ہے تاخیر نہ کر

پیمان محبت ختم ہوا اب ذکر سے اس کے فائدہ کیا
منہ بکھری کڑیوں کے نہ ملا تیار نئی زنجیر نہ کر

الفت کے عہد محکم میں بودے کاغذ کی ضمانت کیا
یہ دل سے دل کی باتیں ہیں رکھ یاد فقط تحریر نہ کر

ہر دل ہے حیات کا سرمایہ ہر دل میں جوش محبت کا
تو آرزوؔ اور کہے گا کیا بس رہنے بھی دے تقریر نہ کر

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse