تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے
Appearance
تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے
عشق کی آتش بلا ہے اس کی سوزش اور ہے
کیوں نہ وحشت میں چبھے ہر مو بشکل نیش تیز
خار غم کی تیرے دیوانے کی کاوش اور ہے
مطربو باساز آؤ تم ہماری بزم میں
ساز و ساماں سے تمہاری اتنی سازش اور ہے
تھوکتا بھی دختر رز پر نہیں مست الست
جو کہ ہے اس فاحشہ پر غش وہ فاحش اور ہے
تاب کیا ہمتاب ہووے اس سے خورشید فلک
آفتاب داغ دل کی اپنے تابش اور ہے
سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے
ابر مت ہم چشم ہونا چشم دریا بار سے
تیری بارش اور ہے اور اس کی بارش اور ہے
ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق
تیری چشم فتنہ زا کی لیک گردش اور ہے
بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ
کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |