تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا
by منیرؔ شکوہ آبادی

تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا
مرغان قدس کے لئے گل دام لے گیا

دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
میں گور میں چراغ سر شام لے گیا

کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا

کیا کیا دکھائی سیر سفید و سیاہ دہر
کس کس طرف کو ابلق ایام لے گیا

اعجاز میں نے رجعت خورشید کا کیا
بالائے بام اس کو سر شام لے گیا

بھٹکے پھرے دو عملۂ دیر و حرم میں ہم
اس سمت کفر اس طرف اسلام لے گیا

چہلے کے گل چڑھائے کوئی میری قبر پر
میں آرزوئے وصل گل اندام لے گیا

پستان نو دمیدہ نے ملوائے خوب ہاتھ
میں داغ حسرت ثمر خام لے گیا

دیدار دوستان وطن کا دکھا دیا
مجھ کو عدم میں ابلق ایام لے گیا

پہنا کفن تو کوچۂ قاتل میں پائی راہ
کعبہ میں مجھ کو جامۂ احرام لے گیا

راہ عدم میں سیر چراغاں نظر پڑی
تربت میں داغ غم دل ناکام لے گیا

دوزخ میں جل گیا کبھی جنت میں خوش رہا
مر کر بھی ساتھ گردش ایام لے گیا

نفرت ہوئی دورنگئ لیل و نہار سے
میں صبح و شام اس کو لب بام لے گیا

زیر زمیں غروب ہوا آفتاب آج
تربت میں داغ بادۂ گلفام لے گیا

تیر ستم سے مل کے اڑا جانب عدم
پر آپ کے خدنگ سے میں دام لے گیا

میں جستجوئے کفر میں پہنچا خدا کے پاس
کعبہ تک ان بتوں کا مجھے نام لے گیا

ساقی کے پاس وسعت مشرب نے راہ دی
میں کاسۂ فلک عوض جام لے گیا

کچھ لطف عشق کا نہ ملا جیتے جی منیرؔ
ناحق کا رنج مفت کا الزام لے گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse