تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
by حیدر علی آتش

تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویر خیالی روبرو برسوں

ہوا مہمان آ کر رات بھر وہ شمع رو برسوں
رہا روشن مرے گھر کا چراغ آرزو برسوں

برابر جان کے رکھا ہے اس کو مرتے مرتے تک
ہماری قبر پر رویا کرے گی آرزو برسوں

چمن میں جا کے بھولے سے میں خستہ دل کراہا تھا
کیا کی گل سے بلبل شکوۂ درد گلو برسوں

اگر میں خاک بھی ہوں گا تو آتشؔ گرد باد آسا
رکھے گی مجھ کو سرگشتہ کسی کی جستجو برسوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse