تصور آپ کا ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
by نظام رامپوری

تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
یہی اب مشغلا ہے اور میں ہوں

مری ضد سے ملا پھر دشمنوں سے
بس اب وہ بے وفا ہے اور میں ہوں

وہ ہو اور میں ہوں اور کوئی نہ ہو غیر
یہی ہر دم دعا ہے اور میں ہوں

تصور میں ہیں پہروں ان سے باتیں
شکایت کا مزا ہے اور میں ہوں

تمہاری خو ہے رنجش ہر گھڑی کی
یہ جھگڑا روز کا ہے اور میں ہوں

الٰہی وصل ہے یا خواب ہے یہ
حصول مدعا ہے اور میں ہوں

ہزاروں غم تو دیکھے اس سے مل کر
وہی پھر حوصلا ہے اور میں ہوں

سہے کیا کیا ستم اور اب تلک بھی
تمنا ہے وفا ہے اور میں ہوں

گئے وہ تو جہاں جانا تھا ان کو
اب ان کا نقش پا ہے اور میں ہوں

ہر اک سے حال دل کہتا ہوں اپنا
یہ چرچا جا بہ جا ہے اور میں ہوں

دو عالم کی خوشی سے کچھ نہیں کام
فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں

وہ ہے اور عہد نامے ہیں عدو سے
نصیبوں کا لکھا ہے اور میں ہوں

غم دوری قیامت ہے کہ ہر دم
اجل کا سامنا ہے اور میں ہوں

خدا کی جنتیں ہیں اور ہے خلق
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں

سحر ہوتے ہی جاتے ہی کسی کے
وہی آہ و بکا ہے اور میں ہوں

نظامؔ اس بت کے غم میں ہو تسلی
بس اک ذات خدا ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse