تشکیک سے مذہب کی تائید ہوتی ہے یا مخالفت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

تشکیک سے مذہب کی تائید ہوتی ہے یا مخالفت

محررۂ: مسٹر عبدالماجد بی اے

رسالہ معارف، جلد اول، شمارہ چہارم، ذی الحجہ 1334ء، اکتوبر 1916ء


منجملہ ان چند الفاظ کے، جن کو ارباب مذہب نے ہمیشہ نفرت، عداوت و خوف کی نگاہ سے دیکھا ہے، ایک لفظ تشکیک، یا لاادریت بھی ہے، تشکیک، ان کے نزدیک مذہب کی سب سے قوی حریف ہے: متکلمین کو انہوں نے تحریکات دینی کا سب سے بڑا قاطع و برباد کن سمجھا ہے؛ اور لاادریت ان کے لغت میں ہمیشہ الحاد و دہریت کے مرادف رہی ہے۔ مذہبی حلقوں میں یہ ایک قطعی و مسلم رائے ہے، لیکن واقعات بھی اس کی تائید کرتے ہیں؟ صفحات ذیل میں اسی سوال کا جواب ملے گا۔

یہ مسئلہ درحقیقت تین مختلف مسائل سے مرکب ہے، یعنی مذہب کیا ہے، الحاد کیا ہے، اور پھر تشکیک کا ان دونوں سے کیا تعلق ہے۔ جب یہ مسائل بجائے خود منقح ہو جائیں گے تو پھر سوال مندرجہ عنوان کا حل از خود ہو جائے گا، اور کسی مزید بحث کی گنجائش نہ رہے گی۔

پہلا مسئلہ۔ مذہب کی ماہیئت: مذہب کی صحیح ماہیت کے دریافت کرنے میں جو شے سب سے بڑھ کر مانع ہوتی ہے وہ مختلف مذالب کا باہمی اختلاف، بلکہ تضاد ہے۔ اس دقّت پر غالب آنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف ان خصوصیات کو پیش نظر رکھا جائے جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اور صرف انہی مہمات عقائد سے سروکار رکھا جائے جنہیں ہر مذہب نے بہ این تخالف و تباین، بطور بنیاد کار کے تسلیم کیا ہے۔ اس حیثیت سے مذہب پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے عناصر ترکیبی حسب ذیل ہیں:

1۔ کسی مافوق ادراک قوت یا ذات کا وجود، جو تمام عالم پر حاکم و متصرف ہے۔

2۔ اس فوق الادراک ہستی کی طرف سے انسانی زندگی کے ہدایات و احکام کا نزول، جسے وحی و الہام کہتے ہیں۔

3۔ ان احکام کی پابندی کی تاکید، اور ان کی خلاف ورزی پر تعزیرات شدید کی وعید۔

یہ مذہب کی تصریحات ہیں، ان سے دو نہایت اہم تفریعات نکلتی ہیں، جن کا مذہب نے خواہ کبھی صراحتہً دعوی نہ کیا ہو، لیکن ان کا مفہوم کلیات بالا کے پردہ میں لازمی طور پر شامل ہے، وہ تفریعات ہیں: اولاً یہ کہ انسان فاعل بارادہ ہے۔ افعال کی ذمّہ داری کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان ایک صاحب شعور و عقل مخلوق ہے۔ ثانیاً یہ کہ انسانی عقل کا ایک محدود و مخصوص دائرۂ عمل ہے جس سے اسے کسی حالت میں قدم نہ نکالنا چاہیے، یعنی تکوین عالم کی علت، و امور معاد، وغیرہ عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ ان معاملات میں انسان کی عملی زندگی کی رہنما، عقل نہیں بلکہ اعتقاد ہے۔

ترتیب اہمیت کے لحاظ سے مذہب نے ہمیشہ ثانی الذکر تفریع کو اوّل الذکر پر مقدم رکھا ہے۔ ادنی درجہ کے مذاہب کا ذکر نہیں، بڑے سے بڑے متمدن مذہب نے بھی جب کہا ہے تو یہی کہا ہے کہ عقل اگرچہ انسان کے حق میں ایک بڑی نعمت ہے، باینہمہ اس کا دائرۂ عمل، عالم ظاہری کی چند اوپری باتوں تک محدود ہے۔ اور یہ کہ کائنات کے دقیق اسرار اور حقائق اصلی کا انکشاف اعتقاد نامی ایک مافوق العقل شے پر ہے، جس میں اگر عقل دست اندازی کرے، تو اس کا نام کفر ہے۔ مسیحیت کے بڑے سے بڑے روشن خیال عالم سے جب یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ ایک کا تین، اور تین کا ایک ہونا کیونکر ممکن ہے، تو اس کے جواب میں وہ یہی کہتا ہے کہ یہ محض اعتقادی مسئلہ ہے۔ عقل و دلیل سے اس کا تعلق نہیں، خود اسلام میں مومنوں کی یہ شان بتائی گئی ہے کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں، اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ جب کبھی دقائق فطرت مثلا ماہیت روح سے متعلق استفسار کرتے تھے تو اس ارشاد کے ساتھ کہ یہ ایک فرمان ایزدی ہے، انہیں فوراً ہی یاد دلا دیا جاتا تھا، کہ ان کا دائرۂ علم تو بہت ہی محدود ہے۔ اسی طرح کفار کی اس خصوصیت کو نمایاں طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ ہر اس بات کی تکذیب پر تیار ہو جاتے ہیں، جو ان کی عقل میں نہیں آتی۔ حالانکہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی عقلیں تو بہت ہی نارسا ہیں۔

غرض مذہب کے اصل الاصول کو اگر دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ نظام زندگی ہے، جس میں اعمال انسانی پر اصلی حاکم و متصرف عقل کو نہیں بلکہ اعتقاد کو قرار دیا گیا ہے۔

2۔ الحاد۔ مذہب کے برعکس الحاد نام ہے عقل پرستی کا۔ ملاحدہ کی طرف سے ہر ملک و ہر زمانہ میں مذہب پر جسقدر اعتراضات ہوتے رہے ہیں، ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ مذہب کی تعلیمات چونکہ عقل کے مخالف ہیں، اس لیے غلط اور ناقابل قبول ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں مذہب طبیعی، انیسویں صدی میں مادیّت اور آج عقلیت کے نام سے الحاد کے جو مختلف مظاہر دنیا میں پیدا ہوتے رہے ہیں، ان کی خصوصیت مشترک یہ ہے کہ ان کے علمبردار صرف عقل کو اپنی زندگانی کا رہنما قرار دیتے ہیں، اور بہ غایت بلند آہنگی دعوی کرتے ہیں کہ چونکہ مذہب عقل کی مخالفت کرتا ہے، اس لیے قطعی ہے کہ یہ فنا ہو جائے گا، چنانچہ اٹھارہویں صدی میں جن لوگوں نے الحاد کا اسکول قائم کیا تھا انہوں نے اس کا نام Religion of Reason یعنی مذہب عقلی رکھا تھا۔ اور اس وقت کے مشہور ترین منکر مذہب ٹامس پین نے مذہب کے رد میں جو کتاب لکھی، اس کا نام بھی Age of Reason یعنی عہد عقلی یا دور عقلی رکھا۔ پھر آج بھی جس قدر مشاہیر ملاحدہ و منکرین مذہب ہیں، وہ سب اپنے تئیں Rationalist یعنی عقلیئین کہتے ہیں۔ اور لندن میں ان لوگوں کی جو بہت بڑی انجمن تقریبا 15 سال سے قائم ہے، اس کا نام بھی Rationalist Association یعنی انجمن عقلیت ہے۔ خود ہندوستانی ملاحدہ میں اس وقت جو مذہب و عقلیت کے درمیان تقابل قائم کیا جا رہا ہے، وہ اسی یوروپین عقل پرستی کی صدائے بازگشت ہے۔

تیسرا مسئلہ، تشکیک، اب یہ دیکھنا ہے کہ تشکیک و لاادریت جو تقریبا ہر زمانہ میں محققین کی جماعت کثیر کا مسلک رہی ہے، اور جس کے مشاہیر ارکان قدمائے یونان میں پرہو، کارینڈس، آرسیسلاوس، وسکیشس اور یوروپ میں ہیوم، کینٹ، اسپنسر، ہکسلے و ڈارون ہوئے ہیں، اس سے مذہب کی تائید ہوتی ہے یا الحاد کی۔ اس کا حل ایک دوسرے سوال پر موقوف ہے، یعنی تشکیک کی ماہیت کیا ہے۔ قدماء مشککین یونان کی تصانیف آج موجود نہیں، لیکن متاخرین نے جو کچھ ان کے بارہ میں لکھا ہے، اس سے ان کے متعلق حسب ذیل معلومات حاصل ہوتے ہیں۔

"حقائق اشیا مجہول ہیں، انسان کو اتنا تو بلاشبہ معلوم ہوتا ہے کہ مظاہر طبعی کیا ہیں، لیکن کسی شے کی اصل حقیقت یا ماہیت کا اسے مطلق نہیں علم حاصل ہو سکتا، انسانی معلومات جس قدر بھی ہوں، یا تو محسوسات ہوں گے اور یا محسوسات سے ماخوذ ہوں گے، شق اول میں، چونکہ ہر انسان کے حواس دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے محسوسات کے علم کا اضافی ہونا، اور ہر شخص کے لیے ان کا مختلف ہونا ظاہر ہے، اور شق دوم میں بھی وہ اس لیے اضافی ہوں گے کہ انسان متفاوت العقول ہوتے ہیں اور ہر شخص کی عقل اس تربیت اور ماحول کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں وہ نشوونما پاتا ہے، پس اس کے پاس اصل حقیقت کی دریافت کا کوئی ذریعہ نہیں، خواص و کیفیات اشیاء کے متعلق ہم نے جو رائیں قائم کی ہیں، ان میں سے ہر ایک کی مساوی قوت کے ساتھ تردید و تائید کی جا سکتی ہے، جن چیزوں کو محاسن اخلاق سمجھا جاتا ہے، ان کی حمایت و موافقت پر جس قدر دلائل قائم ہو سکتے ہیں، اسی قدر ان کی مخالفت پر بھی قائم کیے جا سکتے ایسی حالت میں فطری حیثیت سے انسان کے پاس امتیاز حق و باطل کا کوئی ذریعہ نہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ عملی ضروریات کے لحاظ سے اسے بادی النظر میں اشیاء کے خواص و کیفیات کا ایک پہلو ان کے دوسرے پہلو کے مقابلہ میں راحج ہوتا ہے، اور عمل کے لیے اسی قدر راحجیت و مرحوجیت کافی ہے۔

ڈیوڈ ہیوم نے جو تشکیک جدید کا ابوالآباء ہوا ہے، اپنی متعدد تصانیف میں جن خیالات کی اشاعت کی ہے، ان کا ماحصل یہ ہے۔

فلاسفہ و الہئین اپنا سارا زور اس پر صرف کرتے ہیں کہ مختلف اشیائے عالم کے درمیان رشتء علت و معلول دریافت کریں، لیکن مزید غور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسبت تعلیل جس پر سارے نظام فلسفہ کی بنیاد ہے ایک وہمی و بے حقیقت شے ہے، ہم کسی شے کے معلول ہونے کے یہ معنی لیتے ہیں کہ جب ایک خاص واقعہ (جس کا نام ہم نے علت رکھا ہے) ظاککہر ہو گا تو دوسرا واقعہ بھی لازمی طور پر ظاہر ہو گا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس لزوم کی کیا دلیل ہے۔ یہ ہم کس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ جب ایک شے واقع ہو گی تو دوسری بھی لازمی طور پر واقع ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس کی بنیاد صرف ہماری ایک ذہنی عادت پر ہے، جب ہم دس بیس بار یہ مشاہدہ کر چکتے ہیں کہ آگ کے روشن ہونے کے ساتھ ہی ہمیں گرمی محسوس ہوئی تو ہمارا ذہن اس توقع کا ایک طرح پر عادی و خوگر ہو جاتا ہے، کہ آیندہ بھی جب آگ روشن ہو گی تو ہمیشہ گرمی پیدا ہو گی۔ بس اس عادت کے سوا اور کوئی بنیاد تعلیل کی ہمارے پاس نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم عقل و دلیل کی بنا پر کسی شے پر پورا اعتماد نہیں کر سکتے، اس کے علاوہ ہمارے تمام دلائل تحلیل ہو کر اوّلیات پر ٹھہرتے ہیں، جنہیں ہم نے شروع ہی سے مسلّم فرض کر لیا ہے، لیکن خود ان کی صحت کی کیا ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر ہمیں نظری حیثیت سے یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہمیں کسی حقیقت کا علم نہیں ہو سکتا، بلکہ ہمارے معلومات تمام تر اضافیات پر مشتمل ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان فطرتاً عمل پسند واقع ہوا ہے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا، ایک شے کوترک اور دوسرے کو اختیار کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے، جس سے وہ بچ ہی نہیں سکتا۔ ان حالات کے ساتھ انسان کی سی متناقض الفطرت ہستی کے لیے بہترین صورت یہ ہے کہ وہ باوجود اس یقین کے کہ حقائق اشیا اس کے لیے ناقابل ادراک ہیں، اپنے تئیں سوسائٹی کے احکام و اوامر پر چھوڑ دے، اور جو رسم و رواج اپنے گرد و پیش دیکھے، عمل کیے، انہیں کو اختیار کرتا رہے۔

کینٹ کی جس کا وہی فلاسفۂ یورپ میں ہے، جو یونان میں فلاطون کا تھا، دو تصانیف خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں۔ ایک "عقل مجرد (Pure Reason) پر ہے، اس میں وہ نفس بشری کی محققانہ تحلیل اور انسانی معلومات پر شرح و بسط کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انسان کے لیے ماہیئت اشیا کا علم ناممکن ہے، اور اسرار کائنات کی عقدہ کشائی کے جب وہ درپے ہوا تو ہمیشہ ناکامی و گمراہی اس کے نصیب میں رہی۔ چنانچہ وجود باری، وجود روح، حیات بعد الموت جو الہیات کے مہمات مسائل ہیں، ان پر اگر خالص عقلی و استدلالی حیثیت سے نظر کی جائے تو ان کی نفی و اثبات دونوں پر مساوی درجہ کے شواہد ملتے ہیں، اسی طرح جتنے مباحث ماہیت اشیاء سے متعلق ہیں ان سب کی یہ کیفیت ہے کہ انسان ان پر جس قدر زیادہ غور و فکر کرتا ہے، اسی قدر وہ اور زیادہ غامض، سربستہ و لاینحل ہوتے جاتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو عقلی حیثیت سے کسی مسئلہ کی کنہ پر لقیاً یا اثباتاً کوئی حکم لگانے کا حق نہیں۔ لیکن حیات نظری کے علاوہ انسان حیات عملی بھی رکھتا ہے، جس سے متعلق کینٹ اپنی دوسری کتاب عقل عملی (Practical Reason) میں بالتفصیل بحث کر کے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جن مسائل غامضہ کے حل کرنے میں ہمارے قوائے مفکرہ ناکام رہتے ہیں، وہ بالآخر ہمارے قوائے عملیہ کی مدد سے صاف ہو جاتے ہیں، اور خدا، روح و حیات بعدالموت کے وجود کو جس کی طرف سے ہم عقلا و استدلالاً مایوس ہو چکے تھے، انہیں ہمیں اپنی عملی ضروریات کے لحاظ سے اعتقاداً لامحالہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہیئت اجتماعیہ کی بہبود، نظام اخلاق کی بقا، افراد کا سکون خاطر، شیرازۂ عمرانی کی جمعیت، سب ان تین ہستیوں کے صحیح تسلیم کرنے کے ساتھ وابستہ ہے۔

اس کے بعد انیسویں صدی کے رہبران لاادریت می‎ سب سے زیادہ ممتاز اسپنسر، ہکسلے گزرے ہیں، جنکے عقب میں ڈارون، ٹنڈل، یل، مارلی وغیرہ متعدد مشاہیر عصر کے نام بھی نظر آتے ہیں، ان لوگوں کے عقائد اگرچہ تفصیلات میں باہم خود مختلف و متناقض ہیں، لیکن اصولا و اجمالا کینٹ و ہیوم کی صدائے بازگشت ہیں۔ یعنی اس قدر ان سب کو مسلّم ہے کہ حقائق اشیا کا علم، حواس و عقل کے ذریعہ نہیں ہوتا، البتہ یومیہ زندگی کی عملی ضروریات کے لحاظ سے ہمیں مظاہر طبعی پر پورا اعتماد رکھنا چاہیے۔ اور جہاں عقل کی دسترس نہیں، وہاں اعتقاد کا سہارا ڈھونڈنا چاہیے۔ بیانات بالا سے تشکیک کے متعلق جو معلومات حاصل ہوئے، ان کا ماحصل ہم دفعہ وار درج ذیل کرتے ہیں، اور ان کے مقابلہ میں مذہب کی تائید یا تردید بھی دکھاتے ہیں۔

تشکیک کی تعلیم مذہب کی ہدایت
1۔ حقائق اشیا انسان کی نظر سے مجہول ہیں۔ انسان کی معلومات کائنات کے اوپری و سطحی حصہ تک محدود ہیں۔ مذہب اس کو بہ لسان تمثیلی یوں کہتا ہے کہ آدم کو صرف 'اسماء' بتائے گئے، ماہیت اشیاء کے علم کا مذہب نے کبھی دعوی نہیں کیا۔
2۔ اصل حقیقت کے لحاظ سے یہ کوئی شخص نہیں فیصلہ کر سکتا کہ راہ حق پر کون ہے، مختلف اشخاص اپنے گردو پیش کے رسم و رواج میں گرفتار ہیں، کہ یہی طریقہ ان کے لیے آسان و قابل عمل ہے۔ مذہب کہتا ہے: کُلّ یعملُ علیٰ مثاکلتِہ وَ رَبّک اعلم بمن ھواھدی سَبیلاً
3۔ بیشمار چیزیں عقل کی دسترس سے باہر ہیں، اس لیے عقل کو ہر شے کی واقفیت و غیر واقفیت یا صدق و کذب کا معیار قرار دینا خود ہماری نادانی ہے۔ بالکل یہی ہدایت مذہب نے بارہا کی ہے۔
ہیئت اجتماعیہ بلکہ خود انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے اصل لازمی شے عقلی دلائل و براہین نہیں، بلکہ مستحکم معتقدات ہیں۔ مذہب کا دارومدار اسی اصول پر ہے۔
عقائد و آرا میں بے حد اختلاف کا باعث یہ ہے کہ مختلف افراد خود اپنی فطرت کے لحاظ سے باہم بالکل متباین ہیں۔ مشیت ایزدی ہوتی تو سب انسان یکساں پیدا کیے جاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اس لیے ان میں اختلاف باہمی کا سلسلہ غیر منقطع قائم رہے گا۔

اس قدر اصولی اتحاد کے بعد مذہب و لاادریت میں جو فرق رہ جاتا ہے، کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف طرز تعبیر و پیرایۂ ادا کا ہے۔