تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے
by محمد علی جوہر

تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے
کب در مے خانۂ کوثر کھلے

طاقت پرواز ہی جب کھو چکی
پھر ہوا کیا گر ہوا میں پر کھلے

چاک کر سینہ کو پہلو چیر ڈال
یوں ہی کچھ حال دل مضطر کھلے

رات تلچھٹ تک نہ چھوڑی تب کہیں
راز ہائے بادہ و ساغر کھلے

لو وہ آ پہنچا جنوں کا قافلہ
پاؤں زخمی خاک منہ پر سر کھلے

ہوں جو کثرت ہی کے قائل ان پہ کیا
راز فتح سبط پیغمبر کھلے

رونمائی کے لیے لایا ہوں جاں
اب تو شاید چہرۂ انور کھلے

اب تو کشتی کے موافق ہے ہوا
ناخدا کیا دیر ہے لنگر کھلے

یہ نظر بندی تو نکلی رد سحر
دیدہ ہائے ہوش اب جا کر کھلے

اب کہیں ٹوٹا ہے باطل کا طلسم
حق کے عقدے اب کہیں ہم پر کھلے

اب ہوا ہے ماسوا کا پردہ فاش
معرفت کے اب کہیں دفتر کھلے

فیض سے تیرے ہی اے قید فرنگ
بال و پر نکلے قفس کے در کھلے

جیتے جی تو کچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کھلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse