Jump to content

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے

From Wikisource
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
by مرزا غالب
298123تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملےمرزا غالب

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کِیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.