تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
by مجاز لکھنوی

تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیٔ وحشت کی قسم حیرت کی قسم حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ہم راز تبسم پا بھی گئے

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

ارباب جنوں پر فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزری
آئے تھے سواد الفت میں کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse