ترے وعدے کا ہر اک کو اگر اعتبار ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترے وعدے کا ہر اک کو اگر اعتبار ہوتا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

ترے وعدے کا ہر اک کو اگر اعتبار ہوتا
تو جہاں میں کچھ نہ ہوتا فقط انتظار ہوتا

ابھی کم ہے سوز الفت کہ نفس شرر فشاں ہے
اگر آگ تیز ہوتی تو یہ شعلہ بار ہوتا

دل و تیر خوں چکا کی وہ شبیہ کھینچ دیتا
جو لہو کا کوئی قطرہ سر نوک خار ہوتا

مجھے درد بھی تھا راحت مجھے غم بھی تھا مسرت
جو وہ مجھ کو رنج دے کر کبھی غم گسار ہوتا

جو بھرا ہے غم سے سینہ تو سکوت ہی ہے بہتر
کہ لبوں پر آہ آتی تو اک اشتہار ہوتا

کبھی یوں مٹا نہ سکتا اسے آسمان ظالم
ترے در پہ او ستم گر جو مرا مزار ہوتا

یہ حجاب جسم خاکی کہ ہے دید کا منافی
کبھی درمیاں سے اٹھتا تو وصال یار ہوتا

نہ ہوا اثر کسی پر مرے نالۂ حزیں کا
ترا تیر تھا نہ ظالم کہ جگر کے پار ہوتا

ابھی اور طول دیتے غم عشق کو نظرؔ ہم
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse