ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
by نظیر اکبر آبادی

ترے مریض کو اے جاں شفا سے کیا مطلب
وہ خوش ہے درد میں اس کو دوا سے کیا مطلب

فقط جو ذات کے ہیں دل سے چاہنے والے
انہیں کرشمہ و ناز و ادا سے کیا مطلب

نہال تازہ رہیں نامیہ کے منت کش
درخت خشک کو نشوونما سے کیا مطلب

مراد و مقصد و مطلب ہیں سب ہوس کے ساتھ
ہوس ہی مر گئی پھر مدعا سے کیا مطلب

مجھے وہ پوچھے تو اس کا ہی لطف ہے ورنہ
وہ بادشاہ ہے اسے مجھ گدا سے کیا مطلب

جو اپنے یار کے جور و جفا میں ہیں مسرور
انہیں پھر اور کے مہر و وفا سے کیا مطلب

رضائے دوست جنہیں چاہئے بہ ہر صورت
نظیرؔ پھر انہیں اپنی رضا سے کیا مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse