ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے
by خواجہ محمد وزیر

ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے
گل لالہ تلک صحرا نشیں ہے

پھرا ہے آپ وہ مہ رو ہمارا
ترا اے آسماں شکوہ نہیں ہے

کہیں ایسا نہ ہو اٹھے نہ تلوار
یہی ڈر ہے کہ قاتل نازنیں ہے

نہ پوچھو میرے آنسو تم نہ پوچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

ادب سے پا برہنہ پھرتے ہیں ہم
جنوں فرش الٰہی یہ زمیں ہے

برا سب دشمنوں کا چاہتے ہیں
میں خوش ہوں جیسے دل اندوہ گیں ہے

رہے مضمون غم کی طرح اس میں
ہمارا گھر ہے یا بیت حزیں ہے

جہاں ہے جلوہ گر وہ غیرت ماہ
الٰہی آسماں ہے یا زمیں ہے

بنایا تجھ کو ایسا خوب صورت
کہ نازاں تجھ پہ صورت آفریں ہے

ہیں عشق زلف میں اعضا بھی دشمن
ہمارا ہاتھ مار آستیں ہے

نہ نکلا بے ترے میں گھر سے باہر
نگہ تک چشم میں خلوت نشیں ہے

فلک جو چاہے ہم پر ظلم کر لے
ابھی تو ضبط آہ آتشیں ہے

پڑا ہے تفرقہ بے تابیوں سے
وزیرؔ اب میں کہیں ہوں دل کہیں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse