ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا
by آغا اکبرآبادی

ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا
ترے جمال سے مہتاب کو کمال ہوا

خرام ناز میں ان کو یہ کب خیال ہوا
کہ دل کسی کا پسا کوئی پائمال ہوا

شباب سے تری رنگت کا طرفہ حال ہوا
سپید جوڑا جو پہنا بدن میں لال ہوا

جو وصل یار کی تدبیر کی وصال ہوا
خیال عیش کا آیا تو اک ملال ہوا

ہلال بدر ہوا بدر سے ہلال ہوا
یہاں کمال کسی کا نہ بے زوال ہوا

ہزاروں سیکڑوں پیدا ہوئے ہوئے ناپید
نہ ایک دم بھی زمانے کو اعتدال ہوا

رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا

بتوں کا ظلم کسی نے سنا نہ محشر میں
خدا سے بھی مرا جھگڑا نہ انفصال ہوا

کئے ہیں خوں سے کسی کے یہ دست و پا رنگین
شکار تازہ کوئی آج کیا حلال ہوا

جلایا مجھ کو تو تجھ کو بھی لگ گیا دھبہ
جگر پہ داغ مرے رخ پہ تیرے خال ہوا

جو میں جنوں میں گیا سوئے دشت اے آغاؔ
تو مجھ کو دیکھ کے دیوانہ ہر غزال ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse