تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں
by سراج اورنگ آبادی
294426تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیںسراج اورنگ آبادی

تری نگاہ کی انیاں جگر میں سلیاں ہیں
نجانوں کون سے زہر آب بیچ پلیاں ہیں

اُدھر سیں تند نگاہیں ادھر دل نازک
کدھر کے تیر کی چوٹیں کدھر کوں چلیاں ہیں

خیال غنچہ دہن میں ز بسکہ جاری ہے
ہمارے اشک کی لڑ موتیے کی کلیاں ہیں

زبان حال سیں کہتا ہے ان کا نقش قدم
بہشت دیدہ و دل خوش قدوں کی گلیاں ہیں

نہ پوچھ سرو کا ان قمریوں کوں خاک نشیں
وو شعلہ قد کے دکھوں اے سراجؔ جلیاں ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse