تری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا
by سراج اورنگ آبادی

تری نگاہ تلطف نے فیض عام کیا
خرد کے شہر کے سب وحشیوں کوں رام کیا

اگرچہ تیر پلک نے کیا تھا دل برما
ولے نگاہ کے خنجر نے خوب کام کیا

ترے سلام کے دھج دیکھ کر مرے دل نے
شتاب آ کہ مجھے رخصتی سلام کیا

نہ جانوں عشق کی بجلی کدھر سیں آئی ہے
کہ مجھ جگر کے کھلے کوں جلا تمام کیا

اسی کے ہاتھ میں ہے خاتم سلیمانی
نگین دل پہ جو نقش اس صنم کا نام کیا

مجھے نگاہ تغافل رقیب پر الطاف
ادائے مصلحت آمیز نے غلام کیا

اے آفتاب تری ظلمت جدائی میں
سراجؔ آہ سحر کوں چراغ شام کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse